Iman-e-Ahle-Sunnat

نماز کی 6 شرائط: مکمل رہنمائی اور اہم مسائل

نماز کی شرائط

مضمون پڑھنے سے پہلے کچھ اہم باتیں 

اگر اس ارٹیکل یعنی مضمون کو اپ پڑھتے ہیں تو اپ اس قابل ہو جائیں گے کہ اپ نماز کی شرائط کے حوالے سے بنیادی اور اہم مسائل خود بخود حل کر سکیں گے یعنی اپ کو اتنا شعور ا جائے گا کہ ان مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔

سب سے پہلی اہم بات یہ ہے کہ اس مضمون میں جو بھی بات کی گئی ہے وہ حوالے کے ساتھ کی گئی ہے لیکن حوالہ وہاں لکھا نہیں گیا بہرحال یعنی جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ اگر اپ نور الایضاح جو کہ فقہ حنفی میں ایک جامع اور معتبر کتاب ہے اور قانون شریعت اور بہار شریعت جیسی کتابوں سے اگر اپ یہ مسائل ڈھونڈے تو اپ کو مل جائیں گے وہاں ۔

اور دوسری بات یہ ہے کہ اس مضمون میں الف مدہ(آ) نہیں لکھا گیا بلکہ اس کی جگہ الف ہی لکھا گیا ہے تو اس کے لیے معذرت اپ نے اس کا دھیان رکھنا ہے۔

نماز کی شرائط کے بارے میں بنیادی باتیں

نماز کی کل چھ شرائط ہیں اور یہ نماز پڑھنے سے پہلے پائی جاتی ہیں یعنی شرائط ویسے بھی لفظ سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ کسی چیز کو ادا کرنے کی شرطیں یعنی وہ چیزیں ہوں گی تب ہی نماز جائز ہوگی یا کوئی بھی چیز لگا لیں

جیسے اگر کوئی کہتا ہے کہ حج کی شرائط تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ حج سے پہلے کرنے والی چیزیں تو امید کرتا ہوں اپ کو سمجھ اگئی ہوگی تو یہاں نماز کی شرائط سے مراد یہ لیا جا رہا ہے کہ نماز سے پہلے کرنے والے ضروری کام تو ائیے وہ دیکھتے ہیں کہ کون کون سے کام ہیں جو نماز سے پہلے کریں گے تب ہی ہماری نماز جائز ہوگی ۔

طہارت : 1 ( نماز کی شرط )

 اب یہاں طہارت سے مراد یہ لیا جائے گا کہ نمازی ( یعنی نماز پڑھنے والے) کا پاک ہونا وہ جہاں نماز پڑھ رہا ہے اس جگہ کا پاک ہونا اس نے جو لباس پہنا ہے اس لباس کا پاک ہونا۔

 دیگر اس سے متعلقہ چیزیں

اوپر جو طہارت کے بارے میں بتایا گیا ہےوہ ایک مطلق یعنی عام چیز ہے اب اپ کو طہارت کی تفصیل اور اس کے متعلق مسائل کے بارے میں بتایا جائے گا۔

وہ چیزیں جو نماز پڑھنے سے پہلے اپ کو کرنی چاہیے

نماز پڑھنے والے کا حدث اصغر اور حدث اکبر سے فارغ ہونا۔

حدث اصغر 

عام لفظوں میں حدث اصغر چھوٹے حدث کو کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی شخص کا وضو نہ ہو تو اسے کہا جائے گا کہ یہ حدث اصغر والا ہے۔

حدث اکبر 

حدث اکبر عام لفظوں میں بڑے حدث کو کہتے ہیں مثال کے طور پر ایسا شخص جو کہ جنبی ہو یعنی جس پر غسل فرض ہو اسے کہتے ہیں

حیض نفاس سب کیٹگریز اسی میں ہی آ جاتی ہیں۔

بس اپ یہ سمجھیں کہ حدث اصغر جس کا وضو نہ ہو اس کو کہتے ہیں اور حدث اکبر اسے کہتے ہیں کہ جس پر غسل فرض ہو۔

نماز کے متعلق مزید مسائل

طہارت میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں لیکن جو ضروری تھے میں نے اپ کو بتا دیے ہیں اور بھی ضروری مسائل اس میں ہیں لیکن یہ آرٹیکل لمبا ہو جاۓ گا۔

باقی اس میں مسائل یہ ا جائیں گے کہ استبرا کا حکم، استبرا کسے کہتے ہیں، اور استنجاء کے بارے میں یا پھر نجاستوں کا بیان یعنی نجاست خفیفہ اور غلیظہ یا حیض نفاس یا استحاضہ کی تفصیل وغیرہ یا اگر کوئی شخص شرعی معذور ہے تو اس کی طہارت کیسے ہوگی یا اگر پانی وغیرہ نہیں ہے تو تیمم کے ساتھ کس طرح طہارت کرنی ہے یعنی وضو وغیرہ کیسے کرنا ہے باقی اور بھی بہت سی چیزیں ہیں لیکن وہ ہم طہارت والے باب میں بیان کریں گے۔

اگر کچھ سمجھ نہ ائے یا پھر کچھ پوچھنا ہو تو 

امید کرتا ہوں اپ کو حدث اصغر، حدث اکبر طہارت کے بارے میں جتنے بھی یہاں مسائل بیان کیے گئے ہیں اپ کو سمجھ اگئی ہوگی اگر اپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی سمجھ نہ ائے مسئلہ تو اپ پھر کمنٹ کر دیں یا پھر اپ ہمیں ای میل کر دیں یا واٹس ایپ پہ میسج کر دیں تو انشاءاللہ ہم اپ کو وہیں جواب دے دیں گے۔

ستر عورت : 2 ( نماز کی شرط )

ستر عورت کا مطلب یہ ہے کہ یعنی نماز پڑھنے والے کے لیے کتنا بدن  یعنی کتنا جسم چھپانا ضروری ہے میں تو ائیے جانتے ہیں کہ کتنا بدن چھپانا ضروری ہے 

مرد کے لیے

نماز پڑھنے کے لیے مرد کا کم سے کم ناف سے لے کر( ناف کا چھپانا ضروری نہیں یعنی فرض نہیں ہے بلکہ ناف سے لے کر) گھٹنوں تک ( گھٹنوں کا چھپانا فرض ہے) کا جسم چھپانا ضروری ہے یعنی یعنی عام لفظوں میں یہ کہ مرد کا ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا جسم چھپا ہو تب ہی نماز اس کی جائز ہوگی

عورت کے لیے

اسلامی بہن یعنی عورت کے لیے پانچ اعضاء منہ کی ڈکلی،  دونوں ہتھیلیاں، اور دونوں پاؤں کے تلوؤں، ان کے علاوہ تمام کا تمام عورت کے لیے اپنا جسم چھپانا ضروری لازمی ہے 

 نماز میں مرد و عورت کے لیے اہم مسائل

اگر عورت کے دونوں ہاتھ گٹّوں تک ظاہر ہوئے اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک تو ایک مفتی بہ قول کے مطابق اس کی نماز درست ہے مفتی بہ قول کا مطلب جس پر فتوی دیا گیا ہو۔

اگر عورت نے ایسا کپڑا پہنا کہ جس کے پہننے سے وہ اعضا کہ جن کا چھپانا ضروری ہے وہ نظر ائیں یا جلد کا رنگ یعنی چمڑی کا رنگ کا نظر ائے تو اس عورت کی نماز نہیں ہوگی 

عورت کا ایسے باریک کپڑے پہننا کہ جس سے اس کا ستر نہ ہو تو یہ نماز کے علاوہ بھی اس کے لیے حرام ہے 

اور اگر ایسا کپڑا کہ جو موٹا ہو کہ جس سے جسم کی چمک وغیرہ نہ ائے لیکن عضو کی ہیت یعنی شکل و صورت، گولائی وغیرہ نظر ائے تو اس سے نماز اگرچہ ہو جائے گی لیکن کسی دوسرے کا اس عضو کی طرف نظر کرنا جائز نہیں ایسا لباس لوگوں کے سامنے پہننا عورتوں کے لیے بدرجہ اولی منع ہے 

اور بعض عورتیں ململ وغیرہ کے کپڑے میں نماز پڑھتی ہیں یا دوپٹہ لیتی ہیں ململ کا اور جب وہ لیتی ہیں تو ان کے مختلف اعضاء کی چمک وغیرہ نظر اتی ہوتی ہے یا اگر دوپٹہ لیتی ہیں تو بالوں کی رنگت نظر اتی ہے یعنی سیاہی نظر اتی ہے تو ایسا کپڑا نماز کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں 

اور جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے اگر کوئی عضو چوتھائی حصے سے کم کھل جائے تو نماز ہو جائے گی

اور اگر چوتھائی کے برابر یعنی نا چوتھائی سے کم اور نہ چوتھائی سے زیادہ بلکہ برابر کھل گیا اور اس نے فورا ہی چھپا لیا تو بھی نماز ہو جائے گی

لیکن اگر عضو چوتھائی حصے کے برابر کھل گیا اور فورا نہ چھپایا اس میں تین سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک دیر کر دی یعنی ایک رکن جتنی دیر کر دی یا ارادے کے ساتھ کھولا اگرچہ فورا بند کر دیا یعنی چھپا دیا تب نماز جاتی رہے گی یعنی نماز ٹوٹ جائے گی۔ 

وقت : 3 (نماز کی شرط)

نماز پڑھنے والے کو یہ پتہ ہو کہ وہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے اور کس نماز کا وقت جا رہا ہے یعنی یہ نہ ہو کہ وقت ہو عصر کی نماز کا اور وہ مغرب پڑھ رہا ہو ایسا نہیں ہونا چاہیے ایسا جائز نہیں ہے یعنی وقت کوئی اور ہے اور جناب صاحب کوئی اور نماز پڑھ رہے ہیں کرنا ایسا جائز نہیں ہے

ایسے اوقات کہ جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے

ایسے تین اوقات ہیں کہ جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ائیے وہ دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے تین اوقات ہیں کہ جن میں نماز پڑھنا  ہی مکروہ ہے 

طلوع کے وقت : 1

طلوع سے مراد یہ ہے کہ سورج کا جو کنارہ ہوتا ہے نا کنارہ اس کے نکلنے سے لے کر پورا سورج نکلنے کے بعد اس وقت کے اس پر انکھ چندھیانے لگے۔

اور یہ تقریبا کل ملا کر 20 منٹ بنتے ہیں تو اس وقت میں نماز پڑھنا مکروہ کے زمرے میں اتا ہے یعنی نماز پڑھیں گے تو گناہ ملے گا

غروب کے وقت : 2

گروپ کے وقت یعنی جب سورج ڈلنے لگے تب اور یہ مغرب سے 20 منٹ پہلے ہوتا ہے یعنی مغرب سے 20 منٹ پہلے نماز پڑھنا مکروہ ہے 

لیکن اگر اس دن کی عصر کی نماز نہ پڑھی اور وہ وقت داخل ہو گیا یعنی مغرب سے 20 منٹ پہلے کا وقت داخل ہو گیا تو وہ عصر کی نماز پڑھے لیکن اتنی دیر اس کے لیے کرنا یہ حرام ہے

زوال کے وقت : 3

زوال کے وقت بھی نماز پڑھنا مکروہ کے زمرے میں اتا ہے یعنی اگر زوال کے وقت کوئی فرض نمازکوئی سجدہ تلاوت یا کوئی نماز قضا پڑے یا نوافل وغیرہ پڑھیں تو یہ سب کے سب مکروہ ہے اس ٹائم اگر پڑھے گا تو گناہ گار ہوگا 

کون کون سے کام مکروہ وقت میں نہیں کر سکتے

مکروہ اوقات میں نہ ہی فرض نماز نہ ہی واجب نماز نہ ہی نفل نماز اور نہ ہی سجدہ سہو اور نہ ہی سجدہ تلاوت نہ ہی ادا نماز نہ ہی قضا نماز پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی یہ سب کچھ نہیں پڑھ سکتے۔

یہاں واجب نماز سے مراد وتر وغیرہ ہیں اور ادا نماز سے مراد ہے وہ نماز جو ہم نے پڑھنی ہے اور قضا نماز سے مراد ہے وہ جو ہماری نماز چھوٹ گئی تھی وہ اور سجدہ تلاوت میں یہ ہے کہ قران مجید میں جتنی بھی ایات سجدہ ہیں جب ان کو پڑھا جاتا ہے توسجدہ لازم اتا ہے یہاں وہ سجدہ مراد ہے اور سجدہ سہو یہ ہے کہ جب نماز میں کوئی واجب چھوٹ جائے تب جو دو سجدے کیے جاتے ہیں بعد ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد یہاں وہ مراد ہے 

استقبال قبلہ : 4 (نماز کی شرط)

نماز کی چوتھی جو شرط ہے اس کا نام ہے استقبال قبلہ، استقبال قبلہ کا مطلب ہے کہ قبلہ کی طرف منہ کرنا۔

اہم مسئلہ : 1

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنوں ! ہم جو عبادت کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالی کے لیے کرتے ہیں تو اس میں اپ نے یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم جو کعبے کی طرف سجدہ کرتے ہیں یا قیام کرتے ہیں یا کوئی بھی عبادت کرتے ہیں تو یہ اپ نے یاد رکھنا ہے کہ ہم کعبے کو سجدہ نہیں کر رہے ہم اللہ تعالی کو سجدہ کر رہے ہیں 

اگر معاذ اللہ کسی نے کعبے کے لیے سجدہ کیا تو حرام و گناہ کبیرہ کیا۔

اور اگر کسی نے کعبے کی عبادت کی نیت کی تو اس نے تو کھلم کھلا کفر کر دیا  اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا کفر ہے۔

لہذا اپنی نیتوں کو درست کیجئے کہ ہم صرف اللہ تبارک و تعالی کو ہی سجدہ کرتے ہیں نہ کہ کعبہ کو۔

اہم مسئلہ : 2

ایسی کون سی سورتیں ہیں کہ جس کی وجہ سے نماز قبلہ کے علاوہ کسی اور رخ بھی پڑھی جا سکتی ہے؟

اگر کوئی شخص بیمار ہو اور کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اسے قبلہ کی طرف کر سکے اور وہ خود نہ ہو سکے تو کیا کرے گا وہ؟ وہ قبلہ کی طرف منہ کیے بغیر ہی نماز پڑھے گا۔

اور اسی طرح اگر کوئی شخص مجبور ہو اور وہ کعبہ کی طرف منہ نہ کر سکے تو وہ کعبے کے بغیر یعنی کعبے کی طرف منہ کیے بغیر نماز پڑھے اور بعد میں اعادہ بھی نہیں کرنا ہوگا یعنی بعد میں دوہرانہ بھی نہیں ہوگی۔

اور اگر کسی کے پاس اپنا مال یا کسی کی امانت ہو اور وہ یہ بھی معلومات رکھتا ہو کے اگر میں قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھوں گا یا قبلہ کی طرف ہوں گا تو میری چوری ہو جائے گی یعنی مال چرایا جائے گا تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ قبلہ کے بغیر یعنی قبلہ کی طرف منہ کیے بغیر نماز پڑھے۔

اور اگر شریر جانور پر سوار ہے کہ اترنے ہی نہیں دیتا یا اتر تو جائے گا لیکن بعد میں چڑھانے والا کوئی نہیں ہوگا یعنی مددگار نہیں ہوگا یعنی کسی کی مدد کے بغیر چڑھ نہیں سکے گا جانور پر یا پھر اتنا بوڑھا ہے کہ ویسے ہی نہیں جڑ سکے گا یعنی مدد کی ضرورت پڑے گی اور کوئی ایسا بھی نہ ہو جو اسے چڑھا سکے بعد میں یعنی جو اس کی مدد کر سکے تو جس رخ چاہے جس طرف چاہے نماز پڑھے اس کی ہو جائے گی۔ 

اور اگر سواری کو روکنے پر قادر ہے تو روک کر پڑے اگر ممکن ہو تو قبلہ کی طرف منہ کرے ورنہ جیسے بھی ہو سکے پڑے۔ 

اور اگر سواری ٹھہرا کر نماز پڑھنے میں یہ اندیشہ ہے کہ قافلہ نکل جائے گا یعنی قافلہ نظروں سے اوجل ہو جائے گا تو ٹھہر کر نماز پڑھنا ضروری نہیں بلکہ سواری پر ہی پڑتا جائے۔ 

چلتی کشتی پر نماز کیسے پڑھیں ؟

 چلتی کشتی پر نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ قبلہ کی طرف منہ کر کے کہے اور جیسے جیسے کشتی گھومتی چلی جائے ویسے ویسے اپنا چہرہ بھی قبلہ کی طرف کرتا چلا جائے چاہے فرض نماز ہو چاہے نفل نماز ہو۔ 

نماز پڑھنی ہے اور قبلہ معلوم نہیں ہے تو کیا کریں 

نماز پڑھنی ہے اور قبلہ معلوم نہیں ہے تو اس صورت میں یہ کیا جائے گا کہ انسان تحری کرے گا یعنی سوچ و بیچار کرے گا یعنی یہ سوچے گا کہ کس طرف قبلہ ہو سکتا ہے تو جس طرف اس کا دل زیادہ مائل ہو جس طرح اس کا غالب گمان زیادہ ہو تو وہ اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے گا اس کے لیے وہی اس کا قبلہ ہوگا۔

اگر بعد میں معلوم ہوا کہ تحری یعنی سوچ و بیچار غلط کیا ہے تو اس کا حکم۔

اگر بعد میں معلوم ہوا کہ تحری یعنی سوچے بیچار غلط کیا ہے تو اس سے نماز اپ کی جو اپ نے پڑھی تھی او ہو گئی ہے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے یعنی اب نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپ کی نماز ہو گئی۔ 

تحری کے بارے میں اہم مسئلہ 

تحری کر کے نماز پڑھ رہا تھا اگرچہ وہ سجدہ سہو میں تھا اور اس کی رائے بدل گئی یا اس کو یہ سمت درست نہ لگی جس کی طرف وہ نماز پڑھ رہا تھا بلکہ اس کو کوئی اور سمت درست لگنے لگی تواس کے لیے فرض ہے کہ وہ فورا اس سمت کی طرف ہو جائے جس سمت کی طرف اس کا دل مائل ہو رہا ہے

اور اس نے پہلے جتنی بھی نماز پڑھی تھی وہ نہ خراب ہوگی اور نہ ہی کوئی اس میں کمی بیشی ائے گی بلکہ وہ ویسی کی ویسی ہی رہے گی

اور اگر چار رکعتیں چار سمتوں کی طرف پڑی تو یہ بھی جائز ہے یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی رکعت میں اس کا دل کسی اور سمت کی طرف مائل ہوا دوسری رکعت میں کسی اور سمت کی طرف مائل ہوا تیسری سمت میں کسی اور سمت کی طرف مائل ہوا اور اسی طرح چوتھی سمت میں کسی اور سمت کی طرف مائل ہوا تو وہ چاروں سمتوں کی طرف نماز پڑھ سکتا ہے اس سے مراد یہ ہے بشرط یہ کہ اس کا دل مائل ہو ۔

اور ایک بات اور وہ یہ ہے کہ اگر اس شخص نے گھومنے میں دیر کر دی تقریبا تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک اگر اس نے اتنی دیر کر دی تو اس کی نماز نہ ہوگی۔

قبلہ سے سینہ پھیرنے کے کچھ مسائل

اگر نمازی نے قبلہ سے کسی عذر کے بغیر ارادے کے ساتھ اپنا سینہ پھیر دیا اگرچہ فورا قبلہ کی طرف کر دیا تو اس کی نماز پھر بھی فاسد ہو گئی یعنی ٹوٹ گئی ۔

اور اگر بلا قصد پھر گیا یعنی بغیر ارادے کے پھر گیا اور تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار ابھی نہ گزری تھی کہ واپس اگیا تو پھر نماز باقی ہے ۔

اور اگر صرف منہ ہی قبلہ سے پھرا تو اس کے لیے واجب ہے کہ وہ پھیرے ہوئے منہ کو اصلی حالت میں لے کے ائے جس طرح کے پہلے تھا میری مراد جس طرح نماز میں ہوتا ہےتو اس طرح نماز ہو جائے گی لیکن بغیر کسی عذر کے منہ کو پھیرنا مکروہ ہے ۔

باقی قبلہ سے متعلق سوال و جوابات ہم باب القبلہ میں پڑھیں گے ۔

نیت : 5 (نماز کی شرط)

نیت سے مراد دل کا پکا ارادہ ہے صرف تصور و خیال کافی نہیں بلکہ پکا ارادہ ہونا چاہیے۔

نماز میں نیت سے مراد یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کا جو وہ نماز پڑھ رہا ہے اس کو پتہ ہو کہ میں یہ نماز پڑھ رہا ہوں اس کے دل میں نیت یہ ہونی چاہیے کہ میں یہ نماز پڑھ رہا ہوں فلاں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں اور نیت کو زبان سے کہنا بہتر ہے کہ اس سے یہ ہوتا ہے کہ اور پکا ہو جاتا ہے بہرحال دل میں ارادہ رکھنا بھی کافی ہے۔

نماز میں نیت کرنے کا طریقہ 

مثال کے طور پر نماز شروع کرنے سے پہلے یوں کہے کہ میں نیت کرتا ہوں دو رکعت فرض نماز فجر،  اللہ تعالی کے واسطے، منہ میرا کعبہ شریف کی طرف، اللہ اکبر ۔ 

یہ ایک مثال تھی اپ نے جو بھی نماز پڑھنی ہو اپ نے اس کا کہنا ہے ٹھیک ہے۔

نیت سے متعلق کچھ اہم مسائل

مقتدی کو اقتدا یعنی پیروی کی نیت بھی ضروری ہوتی ہے 

اگر امام نے امام ہونے کی نیت نہ کی تو اس صورت میں بھی مقتدی کی نماز ہو جائے گی یعنی نماز صحیح ہے لیکن جماعت کا ثواب نہیں پائے گا ۔

نماز جنازہ کی نیت کا طریقہ

مثلا یوگہ کہ نیت کی میں نے نماز کی اللہ کے واسطے، اور دعا کی اس میت کے لیے، اللہ اکبر ۔

تکبیر تحریمہ  : 6 (نماز کی شرط)

نماز کی چھٹی شرط تکبیر تحریمہ ہے جب ہم نیت کے بعد دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ اکبر کہتے ہیں تو وہ دراصل تکبیر تحریمہ ہی تو ہوتی ہے اس تکبیر کے کہنے کے بعد نماز کا اغاز ہوتا ہے بغیر اس کے نماز شروع نہیں ہو سکتی۔ 

تکبیر تحریمہ سے متعلق اہم مسئلہ

مقتدی نے امام کے تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے ہی تکبیر تحریمہ کہہ لی تو مقتدی کی جماعت میں شمولیت نہ ہوئی یعنی اسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ جماعت میں شامل نہ ہوا۔

نماز کی شرائط مکمل 

تو یہاں تک ہماری نماز کی چھ شرائط مکمل ہو چکی اور اس کے بارے میں مختصر اور کچھ اہم مسائل بھی بیان ہو چکے لیکن مکمل تفصیل کے ساتھ ایک ایک شرط کو لے کر ہم انشاءاللہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم ضرور اس پر کلام کریں گے ۔

اگر اپ کو انفارمیشن اچھی لگی ہوئی ہو یا نہیں لگی ہوئی ہو تو اپ کمنٹ میں ضرور اپنی رائے دیں اور اگر کوئی غلطی نظر ائی ہوئی ہو تو وہ بھی اپ بتائیں کہ کون سی غلطی ہے ہم انشاءاللہ اس کو دور کریں گے۔ 

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علی محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top