Iman-e-Ahle-Sunnat

عقائد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہٗ

عقائد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جل جلالہ

🌟 عقیدہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کی یکتائی اور لاشریک ذات

اللہ تعالیٰ واحد و یکتا ہے۔ اس کی ذات میں کوئی دوسرا شریک نہیں، نہ صفات میں، نہ افعال میں، نہ احکام کے نفاذ میں، نہ ہی اسماء و صفات کے معاملے میں۔ وہ ہر لحاظ سے اکیلا، یکتا اور بے مثال ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
“کہہ دو: وہ اللہ ایک ہے” (الاخلاص: 1)
اور فرمایا: “تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، اُس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں” (البقرہ: 163)

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت نہ صرف تعداد کے لحاظ سے ہے بلکہ حقیقت اور صفات کے اعتبار سے بھی وہ بالکل منفرد ہے۔ اس کی ذات، صفات اور افعال میں کسی قسم کی مشابہت یا شرکت کا تصور محال ہے۔ جیسا کہ “شرح فقہ اکبر” اور دیگر معتبر شروحات میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ ذات ہر قسم کے شریک، مثال اور نظیر سے پاک ہے۔

اسی طرح فرمایا:
“اس کا کوئی شریک نہیں” (الانعام: 163)
اور
“وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا” (الکہف: 26)

اللہ تعالیٰ کی حکمت و اقتدار بھی اس کا ذاتی حق ہے، جس میں کسی دوسرے کی مداخلت یا شرکت ممکن ہی نہیں۔ وہی تمام چیزوں کے فیصلے کرتا ہے، وہی پیدا کرتا ہے، وہی چلاتا ہے، اور ہر چیز کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اسی طرح اس کے اسمائے مبارکہ بھی بے نظیر ہیں، جیسا کہ فرمایا:
“کیا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو؟” (مریم: 65)
یعنی نہ کوئی اس کے نام میں شریک ہے اور نہ اس جیسا کوئی اور ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات “واجب الوجود” ہے، یعنی اس کا ہونا لازمی اور اٹل ہے، اور اس کا نہ ہونا محال و ناممکن۔ وہ ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں، جیسا کہ فرمایا:
“اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو” (فاطر: 15)
یہی اس کی خدائی کی دلیل ہے کہ ہر ممکن وجود اسی سے مدد کا طالب ہے اور اسی کے ذریعے قائم ہے۔

وہ “قدیم” ہے، یعنی ہمیشہ سے ہے۔ اس کا کوئی آغاز نہیں(یعنی ہمیشہ سے ہے )، نہ کوئی وقت ایسا تھا جب وہ موجود نہ تھا۔ اس پر کبھی بھی فنا یا عدم طاری نہیں ہو سکتا۔ یہ صفتِ قدم (ہمیشہ سے ہونا) صرف اللہ کے لیے ہے۔ یہ زمانے کی لمبائی کا نام نہیں، بلکہ اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔


🌟 عقیدہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ ابدی ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے

اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
جیسا کہ فرمایا:
“ہر چیز فنا ہو جائے گی، سوائے اس کی ذات کے” (القصص: 88)

وہی خالق ہے، وہی رب ہے، اور اسی کی عبادت لازم ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ حکم واضح انداز میں آیا ہے کہ:
“اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا” (البقرہ: 21)
“تمہارا رب وہ اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی ہر چیز کا خالق ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو” (الانعام: 102)

یہی وجہ ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنی امت کو یہی دعوت دی کہ صرف اللہ کی بندگی کرو، کیونکہ عبادت کا حق صرف اسی کو ہے۔


🌟 عقیدہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے

اللہ تعالیٰ صمد ہے، یعنی وہ ہر اعتبار سے بے پروا ہے۔ نہ وہ کسی کا محتاج ہے، نہ کسی سے مدد چاہتا ہے۔ اس کے برعکس، ساری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ کوئی بھی چیز اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ جیسا کہ “الاخلاص” میں فرمایا گیا:
“اللہ صمد ہے” (الاخلاص: 2)


🌟 عقیدہ نمبر 3.1: اللہ تعالیٰ کی ذات کا ادراک عقل سے ممکن نہیں

انسانی عقل اللہ تعالیٰ کی ذات کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتی۔ جو چیز سمجھ میں آتی ہے، اس پر عقل کا احاطہ ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ پر کسی کا احاطہ ممکن نہیں۔
جیسے قرآن میں فرمایا:
“نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں” (الانعام: 103)

یعنی اگر کسی چیز کو آنکھیں ہر سمت سے مکمل طور پر گھیر لیں تو اُسے “ادراک” کہا جاتا ہے۔ لیکن اللہ کی ذات ایسی ہے کہ نگاہیں اُس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتیں، لہٰذا وہ ادراک سے بالاتر ہے۔

البتہ اللہ کے افعال اور صفات پر غور کر کے ہم اجمالی طور پر اس کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔ اُس کی قدرت، حکمت، اور مخلوق پر اس کا تصرف ہمیں اس کی صفات سے روشناس کراتا ہے، اور یہی صفات ہمیں اُس کی ذات کی پہچان کی طرف لے جاتی ہیں — اگرچہ مکمل ادراک ممکن نہیں۔


🌟 عقیدہ نمبر 4: صفاتِ الٰہی

اللہ تعالیٰ کی صفات نہ تو خود اس کی ذات ہیں اور نہ ہی اس کی ذات سے جدا ہیں۔ یعنی یہ کہنا درست نہیں کہ “اللہ کی صفات” دراصل “اللہ ہی کی ذات” ہیں — اور یہ بھی غلط ہے کہ وہ صفات اللہ کی ذات سے الگ کوئی وجود رکھتی ہیں۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی صفات اس کی ذات کا لازمی تقاضا ہیں، ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں، مگر وہ ذات سے باہر کوئی مستقل چیز نہیں۔

مثال کے طور پر (بلا تشبیہ)، جیسے پھول کی خوشبو اس کی صفت ہے — ہم نہ اسے خود پھول کہتے ہیں، نہ اس سے بالکل الگ مانتے ہیں، بلکہ وہ خوشبو پھول کے ساتھ ہی جڑی ہوتی ہے۔ اسی طرح، اللہ کی صفات اُس کی ذات سے لازم و ملزوم ہیں، نہ اس میں گھل کر ذات بن گئیں، نہ جدا ہو کر کچھ اور۔


🌟 عقیدہ نمبر 5: اللہ کی صفات بھی قدیم، ازلی اور ابدی ہیں

جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اسی طرح اُس کی صفات بھی قدیم، ازلی اور ابدی ہیں۔
ان صفات کا کوئی آغاز نہیں اور نہ ہی کبھی یہ صفات ختم ہوں گی۔ اللہ کی ذات ہمیشہ کامل رہی ہے، اور اُس کی صفات بھی اُسی طرح کامل اور ہمیشہ سے ہیں۔

اگر ہم یہ کہیں کہ اللہ میں کوئی صفت بعد میں پیدا ہوئی یا کوئی صفت زائل ہو گئی، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ذات کبھی ناقص تھی — جو کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اس لیے تمام صفات نہایت قدیم، لازمی اور ابدی ہیں۔


🌟 عقیدہ نمبر 6: صفاتِ الٰہی نہ مخلوق ہیں نہ اللہ کے اختیار سے باہر

اللہ کی صفات کو مخلوق کہنا یا انہیں کسی پیدا شدہ چیز کا درجہ دینا سراسر گمراہی ہے۔
یہ صفات نہ کسی وقت پیدا کی گئیں، نہ اللہ کے قابو سے باہر تھیں۔ وہ ہمیشہ سے موجود ہیں، اسی کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، اور اُن میں کوئی تبدیلی یا اضافہ ممکن نہیں۔


🌟 عقیدہ نمبر 7: ذات و صفاتِ الٰہی کے سوا باقی سب چیزیں حادث ہیں

اللہ تعالیٰ اور اُس کی صفات کے علاوہ کائنات میں جو کچھ بھی ہے — وہ حادث ہے۔
یعنی سب مخلوقات پہلے موجود نہ تھیں، پھر اللہ کے حکم سے وجود میں آئیں۔ چاہے وہ زمین و آسمان ہوں، یا فرشتے، انسان، جمادات یا نباتات — یہ سب بعد میں پیدا کی گئی مخلوقات ہیں۔


🌟 عقیدہ نمبر 8: جو صفاتِ الٰہی کو مخلوق یا حادث کہے، وہ گمراہ اور بد دین ہے

جو شخص اللہ کی صفات کو مخلوق سمجھے یا انہیں حادث مانے (یعنی بعد میں پیدا ہونے والی)، وہ اسلامی عقیدے سے منحرف، گمراہ اور بددین ہے۔
اس مسئلے میں نہ شک کی اجازت ہے، نہ توقف (یعنی نہ کہے کہ پتا نہیں)، اور نہ ہی صفاتِ الٰہی کو مخلوق کہنے کی گنجائش — ایسا کہنا کفر کے زمرے میں آتا ہے، اور یہ بات ائمہ، صحابہ، تابعین اور مجتہدین سے منقول ہے۔


🌟 عقیدہ نمبر 9: کسی مخلوق کو قدیم ماننا کفر ہے

اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے سوا کائنات کی کوئی اور چیز ہمیشہ سے موجود ہے، یا کسی مخلوق کے پیدا ہونے میں شک کرے، تو وہ کافر ہے۔
تمام مخلوق حادث ہے ، اور اس میں شک یا انکار اسلام سے انحراف ہے۔


🌟 عقیدہ نمبر 10: اللہ تعالیٰ نہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کی کوئی بیوی ہے

اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نسب، رشتے اور انسانی نسبت سے پاک ہے۔
قرآن میں صاف فرمایا گیا:
“نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا” (الاخلاص: 3)
“نہ اُس نے کوئی بیوی بنائی، نہ اُس کے لیے کوئی اولاد ہے” (الجن: 3)

لہٰذا جو شخص اللہ کے لیے بیٹا، بیوی یا والد مانے — یا ایسا ماننا ممکن جانے — وہ بھی کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
تمام علماء و فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانی صفات یا نسبی رشتوں سے جوڑنا صریح کفر ہے۔

عقیدہ 11:

اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کی حیات ازلی و ابدی ہے۔ وہ اپنی ذات سے زندہ ہے، کسی کے سہارے کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر زندگی اسی کے حکم اور ارادے سے قائم ہے، جس کو چاہے زندگی عطا کرے، اور جسے چاہے موت دے دے۔

عقیدہ 12:

اللہ تعالیٰ کی قدرت ہر ممکن چیز پر کامل ہے، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے قبضۂ قدرت سے باہر ہو۔ جو بھی چیز ممکنات میں شامل ہے، اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے۔

اس کی وضاحت عقیدہ نمبر 13 میں بیان ہوئی ہے

عقیدہ 13:

جو بات محال یعنی عقل و شرع کے لحاظ سے ناممکن ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ محال کا مطلب وہ چیز ہے جو موجود ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر ہم محال چیز کو مقدور (یعنی قدرت کے دائرے میں آنے والی) مان لیں، تو وہ ممکن ہو جائے گی اور پھر محال نہ رہے گی۔
مثلاً ایک دوسرا خدا ہونا محال ہے، اگر ہم کہیں کہ وہ اللہ کی قدرت میں ہے، تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ دوسرا خدا ممکن ہے، جو توحید کا انکار ہے۔
اسی طرح اللہ کا فنا ہونا بھی محال ہے۔ اگر فنا اللہ کی قدرت میں ہو، تو اس کا مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ختم ہو سکتا ہے، اور جو ختم ہو سکتا ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا محالات کو قدرتِ الٰہی کے دائرے میں ماننا، اللہ کی الوہیت (خدائی) کا انکار ہے۔

اس کو اپ ایسے سمجھیں کہ یہ کہنا کہ اللہ تعالی جھوٹ بول سکتا ہے یا اللہ تعالی کوئی دوسرا خدا بنا سکتا ہے یا اسی طرح کا کوئی اور سوال اپنے ذہن میں رکھنا کہ اس طرح ہو سکتا ہے تو یہ کفر ہے 

عقیدہ 14:

ہر وہ چیز جو مقدور ہو، یعنی اللہ کی قدرت میں ہو، اس کا موجود ہونا ضروری نہیں۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ کوئی چیز اللہ کی قدرت میں ہو، لیکن وہ اسے وجود نہ دے۔ ہاں! اس کا ممکن ہونا لازم ہے، خواہ وہ کبھی واقع نہ ہو۔

عقیدہ 15:

اللہ تعالیٰ ہر خوبی اور کمال کا سرچشمہ ہے، اور ہر ایسی بات سے پاک ہے جس میں کسی قسم کا نقص یا عیب ہو۔
اللہ تعالیٰ جھوٹ، فریب، خیانت، ظلم، جہالت، بے حیائی اور ہر قسم کے نقص سے منزہ و مقدس ہے۔
یہ کہنا کہ اللہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے، درحقیقت محال کو ممکن ماننا ہے، اور اس سے اللہ کی ذات میں نقص ماننا لازم آتا ہے، جو سراسر کفر اور توہینِ خداوندی ہے۔
اسی طرح یہ خیال کہ اگر محال پر قدرت نہ ہو تو اللہ کی قدرت ناقص ہو جائے گی — یہ بھی باطل ہے، کیونکہ محال چیز تو بذاتِ خود کسی قدرت کے قابل ہی نہیں۔

عقیدہ 16:

اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات یہ ہیں:

 

    1. حیات (زندہ ہونا)

    1. قدرت (طاقت رکھنا)

    1. سمع (سننا)

    1. بصر (دیکھنا)

    1. کلام (بات کرنا)

    1. علم (جاننا)

    1. ارادہ (چاہنا)

لیکن اللہ تعالیٰ کا سننا، دیکھنا یا کلام کرنا انسانوں کی طرح اعضاء جیسے کان، آنکھ یا زبان کے ذریعے نہیں ہوتا، کیونکہ یہ سب جسمانی چیزیں ہیں، اور اللہ جسم سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ سب سے دبی ہوئی آواز کو سنتا ہے، اور اتنی باریک چیز کو دیکھتا ہے جو خوردبین سے بھی دکھائی نہ دے۔
اس کا علم، سمع، بصر و دیگر صفات مخلوق کی صفات کی مانند نہیں بلکہ اس کی شان کے مطابق اور کامل ترین ہیں۔ وہ ہر موجود کو سنتا اور دیکھتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی چھپا ہوا ہو، یا کتنا ہی باریک ہو۔

عقیدہ (17): کلامِ الٰہی کا قدیم ہونا

اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کی طرح کلام بھی قدیم (یعنی ہمیشہ سے ہے، حادث و نیا نہیں)۔
جو شخص قرآنِ کریم کو مخلوق مانے، تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے جلیل القدر فقہاء و ائمہ نے اسے کافر قرار دیا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے بھی اس کی تکفیر (کفر کا فتویٰ) ثابت ہے۔


عقیدہ (18): کلامِ الٰہی کی آواز سے پاکی

اللہ کا کلام آواز، لہجے یا زبان کی ادائیگی سے پاک ہے۔
البتہ قرآنِ عظیم جسے ہم تلاوت کرتے ہیں، لکھتے ہیں، سنتے ہیں، یاد کرتے ہیں — وہ اللہ کا ہی کلامِ قدیم ہے۔

البتہ یہاں ایک باریک فرق سمجھنا ضروری ہے:

 

    • ہمارا پڑھنا حادث (نیا)، لیکن جو کچھ پڑھا گیا وہ قدیم ہے۔

    • ہمارا لکھنا حادث، لیکن جو کچھ لکھا وہ قدیم ہے۔

    • ہمارا سننا حادث، لیکن جو کچھ سنا وہ قدیم ہے۔

    • ہمارا یاد رکھنا حادث، لیکن جو کچھ محفوظ ہوا وہ قدیم ہے۔

یعنی قرآن کی حقیقت قدیم ہے، مگر ہمارے افعال حادث ہیں۔


وضاحت (شرحِ عقیدہ 18):

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو خوب واضح کیا:

 

    • اللہ کا کلام ایک ہی ہے، نہ کبھی علیحدہ ہوا، نہ ہوگا۔

    • وہ نہ کسی دل میں اُترا، نہ کسی زبان میں داخل ہوا، نہ کسی کاغذ پر اُترا، نہ کسی کان میں حلول کیا۔

    • لیکن اس کے باوجود:

       

        • جو کچھ دل میں محفوظ ہے، وہ قرآن ہے؛

        • جو زبان سے ادا ہوتا ہے، وہی قرآن ہے؛

        • جو کاغذ پر لکھا ہے، وہ بھی قرآن ہے؛

        • اور جو کان سے سُنا جاتا ہے، وہ بھی قرآن ہے۔

یہ سب قرآنِ قدیم ہی کی تجلیات ہیں، جن کا ظہور مفہوم، آواز، شکل یا خط کے ذریعے ہوتا ہے۔

مگر یاد رہے، یہ تجلیات حادث ہیں، قرآن خود قدیم ہے۔

جیسا کہ امام احمد رضا نے فرمایا:

“متجلّی قدیم ہے، اور تجلّی حادث”


مثال سے وضاحت:

جیسے ایک شخص جب کپڑا بدلتا ہے تو شخص وہی رہتا ہے، صرف لباس بدلتا ہے
اسی طرح قرآن قدیم وہی رہتا ہے، البتہ اس کی ظاہری صورتیں (تلاوت، تحریر، سماعت) وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

عقیدہ (19): علمِ الٰہی کی وسعت

اللہ تعالیٰ کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ وہ:

 

    • جزئیات و کلیات،

    • موجودات و معدومات،

    • ممکنات و محالات

سب کو جانتا ہے۔ اُس کا علم ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔
اشیاء بدلتی رہتی ہیں، لیکن اللہ کا علم تبدیل نہیں ہوتا۔ وہ دلوں کے خطرات، وسوسوں اور پوشیدہ خیالات تک کو جانتا ہے۔ اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔

📚 دلائل:

{يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ…} (التغابن: ۴)
{وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ…} (الأنعام: ۵۹)


عقیدہ (20): غیب و شہادت کا عالم

اللہ تعالیٰ غیب و شہادت دونوں کو جانتا ہے۔
یہ علمِ ذاتی اُس کی صفت ہے، جو کسی کو ذاتی طور پر عطا نہیں ہوسکتی۔
جو شخص اللہ کے سوا کسی کے لیے علمِ ذاتی یا غیب ذاتی کا دعویٰ کرے وہ کافر ہے۔

یاد رہے کہ جو علم اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رسولوں کو دیا چاہے وہ غیب تھا یا دوسرا کوئی علم وہ عطائی طور پر تھا ذاتی طور پر وہ علم اللہ تعالی کی طرف ہی ہے یعنی ذاتی طور پر وہ علم اللہ تعالی اللہ تعالی کا ہی ہے لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اپنے رسولوں کو بھی وہ علم دیا تو وہ جو علم دیا اپنے رسولوں کو اللہ تعالی نے تو وہ عطائی طور پر دیا یعنی اللہ تعالی نے عطا کیا ہے 

اور اللہ تبارک و تعالی اپنے بعض کاموں کو اپنے بندوں یا فرشتوں کی طرف بھی منسوب کر دیتا ہے جیسے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہیں بیٹا دوں گا 

📚 دلائل:

{هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ} (الحشر: ۲۲)

📌 امام احمد رضا رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“علم ذاتی اللہ ہی کا خاصہ ہے، جو اس میں کسی کو شریک ٹھہرائے، وہ مشرک و کافر ہے۔”
(الدولۃ المکیۃ، ص ۳۹)


عقیدہ (21): اللہ خالقِ کل شے ہے

اللہ تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے:

 

    • ذوات ہوں یا

    • افعال،
      سب کچھ اُسی نے پیدا کیا۔

📚 دلائل:

{اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ} (الرعد: ۱۶)
{وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} (الصافات: ۹۶)


عقیدہ (22): اللہ ہی رزاقِ حقیقی ہے

اللہ تعالیٰ حقیقی رزاق ہے۔
فرشتے یا دیگر اسباب و ذرائع صرف واسطے ہیں۔ رزق پہنچانے والا فی الحقیقت وہی ہے۔

📚 دلائل:

{إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ} (الذاریات: ۵۸)

📖 تفاسیر کے مطابق:
فرشتے مثلاً جبریل، میکائیل، ملک الموت اور اسرافیل علیہم السلام،
اللہ کے حکم سے امورِ دنیا کی تدبیر پر مامور ہیں، لیکن فاعلِ حقیقی اللہ ہی ہے۔


عقیدہ (23): ہر خیر و شر، تقدیر سے ہے

ہر بھلائی اور برائی اللہ کی تقدیر کے مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے ازل کے علم سے یہ جانا کہ کون کیا عمل کرے گا،
اسی علم کے مطابق لکھا۔
یہ نہیں کہ اُس کے لکھنے سے انسان مجبور ہوگیا،
بلکہ جیسا انسان کرنے والا تھا، ویسا لکھا گیا۔

📖 زید کے بارے میں اگر برائی لکھی گئی تو اس لیے کہ وہ برائی کرنے والا تھا۔
اگر وہ بھلائی کرنے والا ہوتا تو اُس کے لیے بھلائی لکھی جاتی۔

✅ انسان مجبور نہیں بلکہ مختار ہے، اور اُس کے افعال اللہ کے علم اور ارادے کے تحت ہی واقع ہوتے ہیں۔

📚 دلائل:

{وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ} (الصافات: ۹۶)
{إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} (القمر: ۴۹)

📌 رسول اللہ ﷺ نے تقدیر کا انکار کرنے والوں کو مجوسی (آتش پرست) کہا ہے۔

🌟 خلاصۂ عقائد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جلّ جلالہٗ

(بحوالہ: بہارِ شریعت – ترجمہ و تلخیص)


1۔ توحید (اللہ کی وحدانیت):

اللہ تعالیٰ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں — نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ اختیارات میں، نہ احکام میں اور نہ ہی ناموں میں۔


2۔ واجب الوجود:

اللہ کا وجود لازمی ہے، یعنی اس کا ہونا ضروری ہے۔
وہ ہمیشہ سے ہے اور، ہمیشہ ہی رہے گا ۔


3۔ بے نیاز ہستی:

اللہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اُس کے محتاج ہیں۔


4۔ ہمیشہ سے ہے:

اللہ تعالیٰ ازلی و ابدی ہے۔ نہ اس کی ابتداء ہے نہ انتہا۔


5۔ اللہ کی صفات:

اس کی صفات بھی ازلی، ابدی اور غیر فانی ہیں۔
صفات اُس کی ذات سے علیحدہ نہیں اور نہ وہ صفات کسی اور کے جیسی ہیں۔


6۔ اللہ کی ذات و صفات کا اندازہ ممکن نہیں:

ہم اللہ کی حقیقت یا اس کی صفات کی کیفیت کو نہیں جان سکتے۔
بس اتنا ماننا فرض ہے کہ وہ ایسا ہے جیسا اُس نے فرمایا اور اس کے رسول نے بتایا۔


7۔ اللہ کا جسم، شکل، رنگ نہیں:

اللہ جسم، جگہ، شکل سے پاک ہے۔
نہ وہ کسی طرف ہے، نہ آسمان پر۔ یہ سب مخلوق کی صفات ہیں، خالق کی نہیں۔


8۔ اللہ شہید و بصیر

وہ ہر جگہ موجود ہے، ہر شے کو جانتا اور دیکھتا ہے، لیکن کسی جگہ میں قید نہیں۔


9۔ اللہ کی ذات ہماری عقل سے ماورا ہے:

ہماری عقل اس کی حقیقت کو نہیں پا سکتی۔ جو چیز عقل میں نہ آئے، ضروری نہیں کہ وہ نہیں ہو سکتی۔


10۔ اللہ کی صفات میں کسی کی شراکت نہیں:

کسی مخلوق میں اللہ کی صفات کا جزوی عکس بھی ممکن نہیں۔
اگر کوئی کسی کو “سب کچھ جاننے والا” یا “ہر جگہ موجود” کہے، وہ کفر تک پہنچ سکتا ہے۔


11۔ اللہ کو دیکھنا ممکن ہے:

اللہ تعالیٰ کو جنت میں مومنین دیکھیں گے، لیکن کیسے؟ یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
دنیا میں اللہ کو آنکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں۔


13۔ اللہ کی قدرت:

اللہ تعالیٰ ہر ممکن چیز پر قدرت رکھتا ہے۔


14۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے:


15۔ اللہ ہر ممکن کام کر سکتا ہے:


16۔ اللہ کو نہ نیند آتی ہے نہ تھکن:

وہ ہر عیب، کمزوری، غفلت، سستی، نیند، بھول سے پاک ہے۔


17۔ اللہ کی مرضی ہی سب پر غالب ہے:

کائنات میں جو ہوتا ہے، اللہ کی چاہت سے ہوتا ہے۔
وہ جو چاہے کرے، کسی کو پوچھنے کا حق نہیں۔


18۔ اللہ نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا:

اللہ کے ماں، باپ، بیوی، بیٹا، بیٹی، خاندان جیسی نسبتیں کفر ہیں۔
یہ عقائد مشرکین و کفار کے گھڑے ہوئے ہیں۔


19۔ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے:

اللہ ہر چیز کو جانتا ہے:

 

    • چھپی ہو یا ظاہر

    • ماضی ہو یا مستقبل

    • دل کا خیال ہو یا آنکھ کا اشارہ

وہ کبھی نہیں بھولتا۔


20۔ غیب کا علم اللہ کے لیے خاص ہے:

اللہ غیب و شہادت دونوں کو جانتا ہے۔
غیب کا علم اللہ کی صفتِ ذاتی ہے، کسی کو ذاتی طور پر نہیں مل سکتا۔


21۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے:

کائنات کی ہر چیز — ہم، ہمارے اباؤ اجداد، وقت، جگہ — سب کچھ اللہ کی تخلیق ہے۔


22۔ اللہ ہی رزق دینے والا ہے:

چاہے کوئی وسیلہ بنے (جیسے فرشتے یا انسان)،
رزق دینے والا حقیقی طور پر صرف اللہ ہے۔


23۔ تقدیر:

جو کچھ ہوتا ہے، اللہ کے علم و تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔
انسان اختیار بھی رکھتا ہے، اور اُسی اختیار کے مطابق اس کی تقدیر میں لکھا گیا ہوتا ہے۔
اللہ کا علم انسان کے عمل کے مطابق ہے، نہ کہ زبردستی تھوپ دیا گیا ہو۔

یاد رہے کہ نہ انسان صرف مجبور ہے اور نہ ہی صرف با اختیار ہے بلکہ انسان مجبور بھی ہے اور با اختیار بھی ہے یعنی اگر انسان کے دو حصے کیے جائیں تو ایک حصہ مجبوری والا ہے اور ایک حصہ باختیاری والا ہے

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ انسان کتنا مجبور ہے اور کتنا با اختیار ہے تو اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو جاؤ تو وہ ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا اور پھر فرمایا اب دونوں ٹانگوں کو اوپر کر لو تو وہ دونوں ٹانگیں اوپر نہ کر سکا تو اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا بس ہم اتنے کے بااختیار ہیں اور اتنے مجبور


✅ نتیجہ:

یہ تمام عقائد ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، اُس کے افعال اور اُس کی بڑائی کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
کوئی بھی عقیدہ جو اللہ کی واحدانیت، بے نیازی، صفاتی کمال، اور خالص توحید کے خلاف جائے — وہ گمراہی ہے۔

Related Post / More info : Dawateislami   or  Mufti Akhtar

عقا ئد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top